Alfia alima

Add To collaction

محبت کی دیوانگی

محبت کی دیوانگی قسط نمبر 16

بیٹا آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے ؟( اب ان کارخ تصبیہا کی طرف تھا ۔)

وہ نہیں جانا چاہتی تھی مگر سیدھا منا بھی نہیں کرسکتی تھی ۔ وہ بس اتنا ہی بول سکی)

نہیں جیسی آپ کی مرضی ۔۔۔(وہ بے دلی سے بولی)

شاباش مجھے یہ ہی امید تھی تم سے بچے۔۔ ٹھیک ہے پھر کل نکلتے ہیں ۔تیاری کرلینا۔ (وہ محبت سے اس کہ سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔تصبیہا ہلکہ سا مسکرائی اور موصب کودیکھنے لگی وہ اپنے ڈیڈ سے کچھ کہہ رہا تھا ۔تصبیہا وہاں سے اٹھ کرچلی گئی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موصب موبائل پر بات کررہا تھا تصبیہا اس کہ پاس آئی اور وہی بیٹھ گئی کہ وہ بات کرلے پھر اپنی بات کرے گی۔ موصب نے اسے بیٹھے دیکھا تو بات جلدی سے ختم کی اور موبائل جیب میں رکھتے ہوئے بولا)

کیا ہوا کچھ کوئی بات کرنی ہے ؟(وہ اسے دیکھ کر ہی سمجھ جاتا تھا کہ اسے ہوا کیا ہے )

تم ڈیڈ کو منا کردو مجھے نہیں جانا ۔(بنا کسی تمید کہ وہ منہ پھولا کر بولی)

موصب مسکرایہ اور بولا۔) میں یہ نہیں کرسکتا ۔

تصبیہا نے اس کی طرف دیکھا اور بولی)

مگر کیوں ۔؟ (اسے حیرت تھی کہ وہ کیوں اسے بھیجنا چاہتا ہے ۔)

یار سمجھنے کی کوشیش کرو ،(وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا)

مجھے کچھ نہیں سمجھنا ۔(وہ چڑتے ہوئے بولی)

شاہ کا رشتہ لے کہ پھر کون جائے گا؟(

کچھ دنوں بعد چلے جاہیں گے وہ کون سا بڈھا ہورہا ہے ۔(اس کی بات پر موصب ہنسنے لگا ۔تصبیہااسے ہنستا دیکھ کر بولی)

موصب تم ہنس رہے ہو اور وہ مجھے کل لے جاہیں گے ۔۔(وہ ابھی بھی سمجھنے سے قاثر تھی)

میری جان وہ تمہیں گھر لے کرجارہے ہیں اور میں بھی تو آجاوں گا کچھ دنوں میں ۔ (موصب نے اس کہ ہاتھ پکڑ کر بولا،تصبیہا کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے ۔اس نے نظریں اٹھا کر موصب کو دیکھا اور بولی)

مجھے نہیں جانا ۔۔۔( اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ بے چین ہوگیا اور فورا سے تصبیہا کو اپنے گلے لگالیا۔ اس کہ سینے سے لگے کر اس کیآنکھوں سے آنسو نکل ہہی گئے ۔)

میں ڈیڈ سے بات کرتا ہو ۔۔۔(وہ بس اتنا ہی بولا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح وہ ریڈی تھے جانے کہ لیے مگر تصبیہا کا برا حال تھا ۔ وہ موصب کہ پاس گئی مگر وہ اپنے ڈیڈ سے باتیں کررہا تھا تو بیچ میں بولنا مناسب نہیں سمجھا اور چلی گئی۔)

موصب کی امی تصبیہا کہ پاس آئی اور بولیں )+

بیٹا آپ ریڈی ہو چلیں ؟ (انھیوں نے پوچھا)



جی۔۔۔(وہ بس اتنا ہی کہہ سکی)
ٹھیک ہے آُپ آجاو ۔۔باہر(وہ کہہ کر باہر چلی گئیں ۔تصبیہا غصے سے برا حال تھا ۔اسے موصب پر بہت غصہ آرہا تھا )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیڈ کچھ دن اور رکھ جاتے آپ لوگ (شاہ بولا )

اتنے دن تو رکھ گئے برخودار ۔(وہ اس کہ کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے ۔)

تصبیہا کہاں ہے؟ (وہ موصب کو دیکھتے ہوئے بولے )

اندر ہے میں لے کر آتا ہوں ۔۔(موصب کہہ کر اندر چلا گیا۔۔ )

وہ اندر کمرے میں آیا تو وہ بیڈ پر بیٹھی تھی ۔ وہ اس کہ پاس آکر برابر میں بیٹھ گیا ۔ تصبیہا نے اس کی طرف دیکھا اور اٹھ کرجانے لگی تو موصب نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔)

ہاتھ چھوڑو میرا ۔۔۔(وہ غصے سے بولی مگر اسے دیکھا نہیں )

مجھ سے ناراض ہو کر جاو گی۔۔( موصب کو پتا تھا وہ اس سے ناراض ہے ۔۔تصبیہا نے بنا کچھ کہے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور باہر جانے لگی تو موصب نے دروازہ بند کرتے ہوئے اس کا راستہ روکھ کرآگے آگیا )

مجھ سے لوگی بھی نہیں ۔(موصب اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا)

تصبیہا بنا کچھ کہے ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔ موصب نے اسے کندھوں سے پکڑا اور بولا)

ادھر دیکھوں میری طرف ۔۔۔۔(جب اس بولنے کہ باوجود بھی اس نے نہیں دیکھا تو وہ بولا)

تصبیہا۔۔۔۔۔

کیا دیکھوں ہاں ۔تمہیں تو خوشی ہورہی ہوگی کہ میں یہاں سے جارہی ہوں ۔اب رہوں یہاں آرام سے ۔میں ہی پاگل تھی کہ سمجھی ۔۔۔۔۔۔۔(وہ اس سے آگے کچھ کہتی کہ موصب اس کہ چہرے پر جھک گیا ۔تصبیہا نے اسے دور کیا مگر اس کا ایک ہاےھ تصبیہا کی کمر پہ تھا تو دوسرا اس کہ کندھوں پر ۔اسے اپنے حصار میں لیے وہ اپنے پیار کی مہر لگارہا تھا ۔۔ )

بھائی ۔۔۔آپی ۔۔(انھیں دیکھنے اندر آیا کہ وہ کہاں رہ گئے ۔۔۔)

شاہ کی آواز سن کر موصب نے اپنا چہرا اٹھایا ۔تصبیہا کی آنکھیں بند تھیں ۔ مگر موصب نے اسے چھوڑا نہیں تھا)

آپی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(شاہ کی آواز دوبارہ آئی تو موصب بولا)

شاہ تم جاو ہم آرہے ہیں ۔۔(موصب کی آواز سے غصہ واضح تھا ،وہ سمجھ گیا تھا اور چلا گیا )

تصبیہا اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔ موصب اسے دیکھتے ہوئے بولا)

میرے ذہن میں تمہارے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ صرف تم ہو میرے دل و دماغ میں ۔۔۔

میری جان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(وہ محنت پاش لہجے میں بولا ) I love you very much
(تصبیہا غصے سے بولی )I hate you

اس کے جواب پر وہ مسکرایہ وہ جانتا تھا کہ وہ ابھی بھی غصہ ہے ۔)

چلو سب انتیظار کررہے ہیں ۔(موصب نے بولا دروازہ کھول دیا ۔تصبیہا نے اسے دیکھا اور باہر چلی گئی ۔ موصب نے نفی میں سر ہلایا اور باہر آگیا ۔ وہ اپنے ڈیڈ سے گلے ملا ۔وہ لوگ گاڑی میں بیٹھ گئے ۔ موصب نے تصبیہا کہ لیے دروازہ کھولا تو تصبیہا نے التیجا بھری نظروں سے اسے دیکھا کہ شاید وہ ابھی بھی اسے روک لے)

بیٹھو۔۔۔۔۔(موصب اس کی نظریں سمجھ گیا تھا ۔تصبیہا نے لمبی سانس لی اور بناکچھ کہے گاڑی میں بیٹھ گئی ۔اس نے دروازہ بند کیا اور گاڑی اس سے دور جانے لگی ۔موصب کھڑا دیکھتا رہا ۔کوئی اس سے پوچھتا کہ کتنا مشکل تھا اسے اپنے سے دور کرنا ۔ جیسے جیسے گاڑی دور جارہی تھی اسے لگا اس کی جان نکل جائے گی مگر خود کو سمبھالتے ہوئے وہ گھر کہ اندر چلا گیا ۔شاہ اس کہ ساتھ ہی تھا ۔ وہ صوفے پر گرنے کہ انداز میں بی بیٹھا ۔ )

آپ بھی ساتھ چلے جاتے ۔۔(شاہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا)

جاوں گا مگر ابھی نہیں ۔(موصب نے صوفے پرسر ٹیکا دیا)

آپی ناراض ہیں آپ سے ؟(شاہ نے ایک اور سواک کیا)

ہمممم ۔(اس نے صرف اتنا ہی کہا)

اب کیا کریں گے آپ ؟

شاہ پلیز چپ ہوجاو۔۔۔(وہ تھکے ہوئے انداز میں بولا تو شاہ چپ ہوگیا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تصبیہا کو رہ رہ کر موصب کا خیال آرہا تھا ۔اس پر غصہ بھی آرہا تھا ۔ پورا راستہ وہ چپ تھی کسی سے کچھ نہیں بولی ۔گھر پہنچ کر جب وہ موصب کہ کمرے میں گئی تو وہاں کی ہر چیز ویسے ہی تھی جیسے وہ چھوڑ کر گئی تھی ۔ پہلے دن سے لے کر آج تک کی فلم اس کی آنکھوں کہ سامنے چلنے لگی ۔ وہ صوفے پر بیٹھ گئی ۔ اپنا سر دونوں میں گرا دیا۔ موصب کا خیال اس کہ ذہن سے جاہی نہیں رہا تھا ۔ اس نے رات کا کھان بھی نہیں کھایا تھا ۔مؤصب کی موم اسے بولانے آیئں تھیں مگر اس نے تھکن کا کہہ کر منا کردیا تھا۔۔۔۔وہ صوفے پر لیٹی تھی جب اسے اپنے موبائل کا خیال آیا وہ بجلی کی طرح اٹھی اسپنا موبائل تلاش کرنے لگی ۔ بیڈ کے پاس سایڈ ٹیبل کی دراز سے اسے آخرکار اپنا موبائل مل ہی گیا مگر وہ آوف تھا ۔اس نے اسی دراز میں دیکھا تو چارجر بھی مل گیا۔ اس نے موبائل کو چارجینگ پرلگا کر وہ وضو کرنے چلی گئی ۔وضو کرکہ اس نے قرآن نکالا اور اس کی تلاوت کرنے لگی۔

جس کا گُزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی ، وہ کہنے لگا اس کی موت کے بعد اللہ تعالٰی اسے کس طرح زندہ کرے گا ؟تو اللہ تعالٰی نے اسے مار دیا سو سال کے لیئے ، پھر اسے اُٹھایا ، پوچھا کتنی مدت تم پر گزری؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ ، ہم تجھے لوگوں کے لئے ایک نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں ، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں ، جب یہ سب ظاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے۔ (سورۃ البقرۃ آیت 259)

..................................

سر ایک نیوز ہے ۔۔(ایک آدمی نے آکر اسے بتایا)

کیا؟ (جہانگیر نے ابرو اچکالر کہا)

سر وہ تصبیہا مڈم کراچی چلی گئی ہیں ۔۔(اس نے بتایا)

کیا ؟ کب؟ (جہانگیر نے حیرت سے پوچھا)

آج صبح ۔۔(اس نے مختصر جواب دیا)

مجھے اس کی ایک ایک پل کی خبر چاہیے ۔ (جہانگیر اسے حکم دیا)

جی ٹھیک ہے سر ۔(سر ہلا کر چلاگیا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موصب کا گھر میں دل نہیں لگ رہا تھا اسے تصبیہا کہ ساتھ بیتایا ایک ایک پل یاد آرہا تھا ۔۔۔ اس نے بھی صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا ۔ اس کہ سوا کچھ یاد ہوتا تو کھاتا ۔ اسے تصبیہا کی بھیگی آنکھیں یاد آرہی تھیں کہ کس طرض التیجا کررہیں تھیں ۔موصب نے موبائل نکالا ۔ تصبیہا کا نمبر ڈائل کیا ۔وہ جانتا تھا کہ اسے ابھی تک موبائل مل چکا ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ تلاوت ہی کررہی تھی جب اس کا فون بجا ۔مگر اس فون نہیں اٹھایا ۔جب وہ قرآن پڑھ رہی ہوتی تھی تو پھر وہ کسی اور چیز پر دیھان نہیں دیتی تھی ۔تھوڑی دیر کہ بعد جب اس نے قران پڑھ کررکھا اور موبائل دیکھا تو اس پر ایک انجان نمبر تھا ۔اس نے دیکھ کر رکھ دیا اور صوفے پر لیٹ گئی ۔ موبائل دبارہ بجا تو تصبیہا نے دیکھا تو وہی نمبر تھا ۔اس نے کال پک کی اور بولی)

ہیلو ۔۔۔(تصبیہا نے کہا)

کسی ہو ؟(موصب کی آواز تھی )

موصب کی آواز سن کر تصبیہا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ چپ رہی کچھ نہیں بولی)

تصبیہا کچھ بولو گی نہیں ۔۔(اسے تصبیہا کی آواز سنی تھی ۔ وہ اس کو سننے کہ لیے بے چین تھا۔ تصبیہا نے کال کاٹ دی ۔ موصب نے موبائل دیکھا تو کال کٹ چکی تھی ۔اس نے میسج سینڈ کیا ۔

تصبیہا نے میسج دیکھا تو موصب کا تھا اور اس پر لکھا تھا۔

You are forever I'm my heart, no matter the distance or the time we are apart.

تصبیہا نے موبائل بند کرکہ رکھ دیا اور سونے کی کوشیش کرنے لگی مگر نیند کیسے آنی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح نشتے کی ٹیبل پر موصب کہ ڈیڈ بولے )

بیٹا نشتہ کرنے کہ بعد آپ اپنے بابا کہ گھر چلی جانا کافی دن ہوگئے ہیں آپ ان سے ملی نہیں ہوگی آپ ۔۔(انھوں نے تصبیہا سے کہا)

جی ۔۔تھیک یو ۔۔(تصبیہا نے مسکرا کر کہا)

نشتہ کرکہ وہ تیار ہونے چلی گئی پھر ڈرائیور کہ ساتھ اپنے بابا کہ گھر پہنچی ۔ وہ ان سے کاف دنوں بعد مل رہی تھی ۔۔۔)

کیسی ہے ہماری بیٹی ۔۔(اس کی امی بولیں )

اللہ کا شکر ہے میں بلکل ٹھیک ہوں ۔آپ لوگ کیسے ہیں ۔۔(اس نے اپنے ماں باپ سے پوچھا)

ہم بھی ٹھیک ہیں ۔کچھ دنوں پہلے تمہارے بابا کی طبیعت خراب ہوگئی تھی ۔ (اس کی امی نے بتایا)

کیا ہوگیا تھا ؟(اس نے گھبرا کہ پوچھا)

کچھ نہیں ہوا تھا ۔ ایسے ہی کہہ رہی ہیں تمہاری امی ۔۔

آپ بتاہیں کیا ہوا تھا ۔(تصبیہا نے اپنی امی سے کہاں )

کچھ نہیں وہ تو موصب نے ڈاکٹر کو بھیج دیا تھا تو سب ٹھیک ہوگیا تھا۔(انھوں نے بتایا)

کیا موصب نے ۔(اس نے حیرت سے پوچھا)

ہاں میں نے ہی منا کیا تھا کہ تمہیں نا بتائے تم پریشان ہوگی ۔ مگر بہت اچھا بچہ ہے ۔ جب سے اسلام آباد گیا ہے ۔ روز فون کرتا ہے ۔ میں نے اس سے کہاں تھا کہ تم لوگ آجاو مگر اس نے کہا کہ وہ بزی ہے ۔۔مگر جب میری طبیعت خراب ہوئی تو اس نے وعدہ کیا تھا مجھ سے کہ اگر وہ نا آسکا تو تمہیں لازمی بھیج دے گا۔۔۔(اس بابا نے اسے حیرت کہ سمندر میں ڈال دیا تھا ۔ کیا تھا وہ شخص ۔اب اسے سمجھ آیا کیوں اس نے اسے یہاں بھیجا اور کیوں وہ اس کی بات نہیں مان رہا تھا۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   1
0 Comments